حافظ آبادتھانہ صدر پولیس نے اندھے قتل کا سراغ لگا لیا سگے بھائی کے ہاتھوں بھائی قتل
قتل کو چوری کی واردات کارنگ دینے کی کوششوں کو ناکام بناتے ہوئے پولیس نے چند گھنٹوں میں حل کر کے ملزم کو آلہ قتل سمیت گرفتار کر لیا اہل خانہ نے قتل کوچپھانے اور قاتل کو بچانے کی خاطر کبوتروں کی چوری میں واردات کے دوران مزاحمت پر فائرنگ سے قتل ہونے کا کہا تھا
حافظ آباد(سٹی نیوز جلالپوربھٹیاں) گزشتہ روز رات تقریباً دس بجے کے قریب پولیس تھانہ صدر کو اطلاع ملتی ہے کہ ڈھرانوالی میں کبوتروں چوری کی واردات میں گھر کے افراد جاگنے پر فائرنگ سے ایک شخص کے شدید زخمی ہونے اطلاعات ہیں تھانہ صدر حافظ آباد ایس ایچ او عہدحسین تارڑ بعمہ نفری فوری موقعہ واردات پر پہنچتے ہیں اسی اثنا تھانہ صدر کی گشت پر مامور پولیس وین اور ملازمین بھی وہی پہنچ جاتے ہیں موقع پر ایک شاہد نامی شخص شدید زخمی حالت میں پڑا ملتا ہے جبکہ گھر میں ایک بوڑھی عورت جوکہ مقتول کی والدہ جس کی عمر تقریباً 65 سال مقتول کی کم عمر بیٹی ہوتی ہے جو پوچھنے پر بتاتی ہیں کہ نامعلوم افراد فائرنگ کر کے شاہد کو زخمی کر کے موقعہ واردات سے فرار ہو گے ہیں ایس ایچ او تھانہ صدر عہدحسین تارڑ نے زخمی کو فوری طور پر ہسپتال منتقل کرنے کے لیے اقدامات کرتے ہیں تاکہ زخمی کی جان بچ سکے زخمی شاہد کو ابھی گاؤں سے لیکر گاؤں سے نکل نہیں پاتے کہ شاہد زخموں تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ جاتا ہے ایس ایچ او تمام شواہد کی روشنی میں فوری طور تحقیقات کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے گھر کو سیل کرتے ہوئے مزید پوچھ گچھ شروع کرتے ہیں گاؤں کے کچھ لوگ یہ بتاتے ہیں کہ فائرنگ کے بعد روڈ کی طرف کچھ لوگوں کو جاتے دیکھا گیا لیکن گھر کے ایک کمرے میں کچھ ایسا ہوتا ہے جس پر پولیس کو شک گزرتا ہے کہ معاملہ کچھ اور ہے لیکن کوئی سراغ نہیں مل پاتا گھر مقتول کی والدہ کے بتاتی ہیں کہ ہم سوئے تھے کہ فائرنگ کی آواز سن کر اٹھتے ہیں تو مقتول زخمی پڑا ہوتا ہے اس سے زیادہ ہمیں کچھ بھی معلوم نہیں لیکن مقتول کے گھر میں کچھ ایسے شواہد پولیس کو ملتے ہیں جن سے پولیس کو شکوک شبہات پیدا ہوتے ہے کچھ گڑبڑ ہے مقتول جہاں پر زخمی پڑا تھا اس کے علاوہ اور بھی ایک کمرے میں خون کے تازہ دھبے تھے مختلف لوگوں کے بیانات کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ مقتول کے تین بچے ہیں جن میں تقریباً 5 سالہ چھوٹا بیٹا اور اس سے بڑی بیٹی 7 سالہ مقتول کا باپ بھائی گھر میں موجود تھے لیکن واردات کے بعد گھر میں نہیں ہیں مقتول کے والد بھائی اور مقتول کے بچوں کو ڈھونڈنے پر مقتول کا 5 سالہ بیٹا اور 7 سالہ بیٹی گاؤں کی مسجد سے ڈرے سہمے مل جاتے ہیں جن کے پوچھنے پر بچے کی باتوں پر پولیس کو مزید شکوک شبہات پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں پولیس گھر میں مقیم دیگر افراد کے متعلق معلومات اکٹھی کرنی شروع ہو جاتی ہے رات زیادہ دیر ہونے اور قتل کو سن کر لوگ ڈرے سمے ہوتے ہیں اور عدم تعاون کرتے ہیں عہدحسین تارڑ مسلسل افسران کو ہر لمحہ صورتحال سے آگاہ کرتے ہوئے تفیش کو آگے بڑھاتے ہوئے بچے سے پیار و محبت سے گھل مل جاتے ہیں جس پر مقتول کے 5 سالہ معصوم فرشتے نے بتایا کہ چاچا اور ابو کا جھگڑا ہوا تو چاچو نے ابو کو پستول سے مار دیا اور بھاگ گیا ہے مقتول کے بچے کے بتانے پر پولیس گاؤں میں مختلف مقامات پر ریڈ کرتی ہے اور ناکام رہتی کوئی کامیابی نہیں ملتی تاہم بڑی کوششوں کے بعد مقتول اور قاتل کے چچا کے گھر میں جامعہ تلاشی کے دوران ایک کمرے میں تالا پڑا ہونے پر پوچھ گچھ کے باوجود تالے کی چابی نہ ملنے پر کمرے کا تالہ توڑنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے جب تالہ توڑ کر پولیس اندر داخل ہوتی ہے تو کمرے میں موجود نوجوان پولیس سے ہاتھاپائی پر اتر آتا ہے کافی گھتم گھتا ہونے کے بعد جب نوجوان کو قابو کرلیتے ہیں تو لائٹ جلانے پر پتہ چلتا ہے کہ یہ مقتول کا بھائی جمشید جو کہ گھر میں کبوتروں کے جھگڑے پر بڑے بھائی کو فائرنگ کرکے قتل کرنے کے بعد گھر سے بھاگ کر چچا کے گھر آگیا مذید تلاشی پر کمرے سے پستول اور خول بھی مل جاتے ہیں پولیس کی پوچھ گچھ کے بعد قاتل جمشید اپنے قتل اعتراف جرم کر لیتا ہے یوں ایک بھائی اپنے ہی سگے بھائی کے ہاتھوں قتل ہو گیا جبکہ گھر والوں نے قاتل کو بچانے کی خاطر کمرے میں بند کر کے باہر سے تالہ لگا دیا گیا تاکہ قتل کا سراغ نہ لگ سکے پولیس اور لوگ سمجھیں کہ کبوتر چوری کرنے والے نامعلوم افراد کی فائرنگ سے شاہد قتل ہوا ہے اس سارے وقوعہ میں گھر کے افراد شامل تھے جو کہ ایک بیٹے کے قتل کے بعد دوسرے کو بچانے کی خاطر سارا ڈرامہ رچایا گیا جسے پولیس کے قابل افسر نے اپنی ذہانت اور پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اس اندھے قتل کا چند گھنٹوں میں سراغ لگا کر ثابت کیا کہ ہر مشکل گھڑی میں پیشہ ورانہ مہارت لگن بہترین ٹیم ورک سے اچھے نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں جو پولیس کی نیک نامی کا باعث بنتے ہیں
0 Comments