نفسیات کے پروفیسر نے کہا کہ کل ہر ایک طالب علم پلاسٹک کا ایک شفاف تھیلا اور ٹماٹرساتھ لائے۔
جب طلباء تھیلا اور ٹماٹر لے آئے تو پروفیسر نے کہا کہ :
‘‘آپ میں سے ہر طالب علم اس فرد کے نام پر جسے آپ نے اپنی زندگی میں معاف نہیں کیا، ایک ایک ٹماٹر چن لیں اور اس پر اس فرد کا نام اور تاریخ لکھ کر اسے اپنے پلاسٹک کے تھیلے میں ڈالتے جائیں۔’’
سب نے ایک ایک کرکے یہی عمل کیا، پروفیسر نے کلاس پر نظر ڈالی تو دیکھابعض طالب علموں کے تھیلے خاصے بھاری ہوگئے۔
پھر پروفیسر نے سب طالب علموں سے کہا کہ:
‘‘ یہ آپ کا ہوم ورک ہے، آپ سب ان تھیلوں کو اپنے ساتھ رکھیں، اسے ہر جگہ اپنے ساتھ لیے پھریں۔ رات کو سوتے وقت اسے اپنے بیڈ کے سرہانے رکھیں، جب کام کر رہے ہوں تو اسے اپنی میز کے برابر میں رکھیں۔ کل ہفتہ ، پرسوں اتوار ہے آپ کی چھٹی ہے، پیر کے روز آپ ان تھیلوں کو لے کر آئیں اور بتائیں آپ نے کیا سیکھا۔ ’’
پیر کے دن سب طالب علم آئے تو چہرے پر پریشانی کے آثار تھے، سب نے بتایا کہ اس تھیلے کو ساتھ ساتھ گھسیٹے پھرنا ایک آزار ہوگیا۔ قدرتی طور پر ٹماٹروں کی حالت خراب ہونے لگی۔ وہ پلپلے اور بدبودار ہوگئے تھے۔
پروفیسر نے مسکراتے ہوئے کہا ‘‘ اس ایکسرسائز سے کیا سبق سیکھا….؟’’
سب طلبہ و طالبات خاموش رہے۔
‘‘اس ایکسر سائز سے یہ واضح ہوا کہ روحانی طور پر ہم اپنے دل پر کتنا غیر ضروری وزن لادے پھر رہے ہیں۔ ہمیں اندازہ ہوا کہ ہم اپنی تکلیف اور اپنی منفی سوچ کی کیا قیمت چکا رہے ہیں۔
0 Comments