حکومتی قرضہ سکیم، ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور، سکیم بنانے والے سکیم چلانے والوں کے ہاتھوں یرغمال، نجی بنک حکومتی سکیم کی دھجیاں بکھیرنے کے درپے۔سکیم تبدیلی سرکار کی، پالیسی بنک اہلکار کی، پیسے دو قرضہ لو وہ بھی سات سال کی بجائے صرف ایک سال کی ماہانہ اقساط پر۔ تبدیلی سرکار نوٹس لے اس سے پہلے کہ قومی سطح پر عوام کے ساتھ ایک اورایسا کھلواڑ ہو کہ لوگ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو بھول جائیں۔عوامی مطالبہ
کامیاب جوان سکیم کے تحت ایک سال سے زیادہ کی ماہانہ اقساط پر قرضہ دینے کی کوئی پالیسی نہیں ہے۔ مینجر بنک الفلاح جلالپور بھٹیاں
وزیر اعظم پاکستان کی جانب سے بے روز گار نوجوانوں کو ماہانہ آسان اقساط اور آسان شرائط پر قرضے دینے کیلئے وزیر اعظم کامیاب جوان کے نام سے سکیم شروع کی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے اس سکیم کی ٹی وی چینلز پر تشہیر کیلئے کروڑوں روپے لگائے جا رہے ہیں۔عوامی سطح پر اس سکیم کو نہایت پزیرائی ملی ہے۔لوگ اس سکیم کے تحت قرضے لیکر کاروبار کر کے سہانے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے بڑھ چڑھ کر سکیم میں حصہ لے رہے ہیں۔ سکیم ابھی اپنے شروعاتی مراحل میں ہے درخواست دہندگان کو درخواست منظور ہونے کے میسجز ملنے شروع ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کے بعد جو افسوس ناک صورتحال سامنے آئی ہے وہ انتہائی مایوس کن ہے۔ منظوری کا میسج ملنے کے بعد درخواست دہندہ جب اپنے متعلقہ بنک رابطہ کرتا ہے تو وہاں اس کے سامنے نجی بنک نمائندگان کی جانب سے ایسی کڑی شرائط قوائد و ضوابط اور پالیسیز رکھی جاتی ہیں کہ اس کو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔مختلف شعبہ جات سے وابستہ افراد کو قرضہ کی سہولت سرے سے دستیاب ہی نہ ہونے کا کہا جا رہا ہے۔ حالانکہ سرکاری ملازمین اور سیاسی شخصیات کے علاوہ ہر شہری قرضہ کیلئے اہل ہے۔نجی بنکوں کے نمائندے خود ساختہ پالیسیز اور شرائط و ضوابط پیش کر کے عام لوگوں کو ٹرخا رہے ہیں۔ جلالپور بھٹیاں شہر سے بنک الفلاح کے مینجرچوہدری وقاص تارڑ کے مطابق اس سکیم کے تحت بنک صرف ایک سال کی ماہانہ اقساط پر قرضے کی درخواست اپروو کر سکتا ہے دیگر کسی قسم کا کوئی آپشن موجود نہیں ہے۔جبکہ ان کے ماتحت آفیسر غضنفر علی کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بنک کی پالیسی کے مطابق وکلا صحافی برادری اور چند دیگر شعبہ جات سے تعلق رکھنے والے افراد قرضہ کے اہل نہیں ہیں۔ ان کے مطابق حکومتی قرضہ سکیم جس میں آٹھ سالہ آسان اقساط پر قرضہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے اس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے یعنی کہ اگر درخواست دہندہ نے دس لاکھ کا قرضہ لینا ہے تو ماہانہ تقریباً 85 ہزار روپے قسط دینا ہو گی اور ایک سال میں واپس کرنا ہوگا۔ نجی بنک کے خود ساختہ پالیسی میکرز اس سوال کا جواب دینے سے گریزاں ہیں کہ دس لاکھ میں ایسا کون سا کاروبار ہو سکتا ہے جو شروع کر کے لاکھ روپیہ ماہانہ نکالا بھی جا سکے۔ اور اگر بنک نے محض اسی پالیسی پر ہی قرضہ دینا ہے تو کیا اعلیٰ سطح پر حکومت میں بیٹھے پالیسی میکرز نے سات سالہ آسان اقساط کا اعلان کر کے عوام کو پھدو بنایا ہے۔ دوسری جانب اندرونی زرائع سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ نجی بنک اس سکیم کے تحت عوام کو آسان اقساط اور شرائط پر قرضے دینے سے گریز کر رہے ہیں اور محض حکومت کی آنکھوں میں دھول جھونکنے اور خانہ پری کیلئے بنک افسران کے مخصوص ایجنٹوں کے زریعے حصہ بکھرا لیکر چند افراد کو اپنی مرضی کی شرائط پر قرضے اپروو کر رہے ہیں۔ اسطرح بنک نمائندگان ہیلوں بہانوں سے سادہ لوح افراد کو اپنے تیار کردہ ایجنٹوں کے ہتھے چڑھا رہے ہیں جو قرضہ دلوانے کیلئے ایڈوانس رقوم بٹورنے اور قرضہ کے پیسوں سے حصوں بکھروں کی ڈیلیں کر کے شہریوں کو لوٹنے کے درپے ہیں۔ اس صورتحال میں شہری نوحہ کناں ہیں کہ عوامی فلاحی قرضہ سکیم دینے والی تبدیلی سرکار اس سکیم کو ناکامی کی جانب گامزن کرنے والے اس پہلو کا سختی سے نوٹس لے اور اس سکیم کو نجی بنکوں کے اہلکاروں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑے۔ حکومت بے روزگار نوجوانوں کو آسان اقساط اور آسان شرائط پر قرضوں کی فراہمی کو یقینی اور شفاف بنانے کیلئے اقدامات کرے۔
0 Comments